تندرستی وہ ہے جو اکل و شرب کو لزیز اور خوش ذائقہ بناتی ہے ورنہ یہ کھانے پینے کا قدرتی تقاضا ایک بڑا ٹیڑھا کام اور خطرناک تھا۔ یہ تندرستی ہے جو میٹھی نیند سلاتی ہے اور طلوع آفتاب کے ساتھ طاقت کو ازسر نو تازہ کرتی ہے اور بستر خواب سے بشاش اٹھاتی ہے۔ وہ تندرستی ہے جو تمہارے پولے اور ناہموار حصول کو پر کر کے بدن کو قابل دید تصویر کی صورت میں ڈھال دیتی ہے۔ یہ تندرستی ہے جو نیچرکی نہایت قیمتی پوشاک سے ہم کو ملتبس کرتی ہے اور ہمارے چہرہ کو دلفریب رنگ وروغن سے رنگتی ہے۔
یہ تندرستی ہے کہ جس کی وجہ سے سخت ورزشیں کھیل اور دل لگی معلوم ہوتی ہیں اور چلنے پھرنے سے ہمارے دل کو فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی بدولت ہمارے دماغی قدرتی عطیات نشوونما پاتے اور بڑھتے ہیں اور عرصہ دراز تک زوال سے محفوظ رہتے ہیں۔ عقل سلیم ہوتی ہے اور حافظہ قائم ہوتا ہے اس کے ذریعہ سے کمزور اجسام کی نازک حالت درو ہوتی ہے اور مردمی کا زور اور شباب کا حسن قائم رہتا ہے۔ روح اس کی برکت سے اس قصر خاکی میں شاد ہو کر رہتی ہے اور ہماری آنکھوں کے دریچوں سے اپنی خوشنودی کا اظہار کرتی ہے۔ اس کی بدولت خوشیاں خوشیاں معلوم ہوتی ہیں اور تمام پر لطف باتیں لطف انگیز محسوس ہوتی ہیں بغیر اس کے نہ کسی بات کا حظ ہے اور نہ واقعی کوئی مسرت ہے۔
لیکن اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھں اور اس حسرتناک نظارہ پر نگاہ ڈالیں جبکہ تندرستی ہم سے الوداع ہو جاتی اور ہماری ہم نشینی سے کنارہ اختیار کرتی ہے سین بلکل ہی مختلف ہو جاتا ہے جو اوپر بیان کیاگیاتمام آرام اور خوشیاں ہم سے چھن جاتی ہیں۔ وہ خواب وشتن جو شام سے صبح تک ہمارا رفیق ہوتا تھا اب ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ہے رات کو بار بار گھبرا کر آنکھ کھلتی ہے جو راتیں تندرستی میں چھوٹی معلوم ہوتی تھیں اب وہ پہاڑ سی نظر آتی ہیں اور کاٹے نہیں کٹتیں۔
نرم بسر ہڈیوں میں چبھتا ہے۔ اب ورزش سے تھکان ہوتی ہے اور ہوا خوری یا چلنا پھرنا گویا بوجھ اٹھا کر لے جانا ہے۔ آنکھیں جو پہلے بجلی کی طرح چمکتی تھیں۔ اب کھرے بادل کی مانند مکدر ہیں جو پہلے اجرام فلکی کے مانند مشرق سے مغرب تک تیزی کے ساتھ متحرک ہوتی تھیں اب ساکت رہنے سے بھی تھکی جاتی ہیں۔ جو پہلے دوسرے عالم صغیر کے مرکز میں (یعنی انسان کے دل میں تیر کی طرح داخل ہو جاتی تھیں۔ اب اپنی کشش ثقل سے محروم ہو کر نہایت کند اور سست ہوگئی ہیں۔
ڈاکٹر ہالبرگ
کہتے ہیں کہ تندرستی کل جاندار مخلوق کی نہایت با قاعدہ حالت کا نام ہے اور انسان اس مستشنی نہیں ہے یہ حالت وہ ہے جو آرام سکھ اور خوشی مہیا کرتی ہے بلکہ نہیں جو زندگی کا کام پورا کرنے اور مہمات زیست کوفتح کرنے اور اس کی مشکلات کو بلا تکان دور کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے اور بڑے بڑے عظیم الشان کا رہاے نمایاں کے لئے غیر معمولی تندرستی درکار ہے۔
ڈاکٹر امرسن
صاحب لکھتے ہیں کہ اول دولت تندرستی ہے پھروہ کہتے ہیں کہ تندرستی میرے اختیار میں دو اور صرف ایک روز مجھے دو میں شہنشاہوں کی شان و شوکت کو مضحکہ ثابت کر سکتا ہوں۔ پس یہ عطا فرمانی خدا کے اختیار میں ہے۔
ڈاکٹر ہاکبرن
صاحب کا قول ہے کہ زمانہ سلف اور زمانہ حال کے جملہ دقیقہ ان مصنفوں نے نہایت زور کے ساتھ تندرستی کی طاقت اور قیمت کا بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر شیکسپیئر
کہتا ہے خوب ہو اگر دیو کا رازہو انسان میں سرو۔ کا قول ہے۔ کہ انسان کسی طرح فرشتہ نہیں بن سکتا مگر اپنے ہم جنسوں کو تند رستی جو تمام دولت اور قیمتی جوہرات پر فوقیت رکھتی ہے تو روح کو فراخ کرتی ہے اورپر لطف خوبیوں کی ہدایتیں حاصل کرنے کے لیے اس کی طاقتوں کو کشادہ کرتی ہے جو تجھ سے متمتع ہے وہ محتاج نہیں اور جسں کمبنت کو تیری آرزو ہے وہ ہر ایک شِے کا محتاج ہے۔ افلاطون نے فرمایا ہے جسم سے کام لے بغیر دماغی کام نہ کرو اور تنہا جسم سے محنت لو۔ جب تک دماغ کو مصروف نہ کرو بلکہ جسم اور دماغ گھوڑوں کی جوڑی کی مانند ایک ساتھ جتا ہوا رکھو اور جب کبھی جسم دماٰغ کا ساتھ دینے سے تھک جاے تو اس کو آرام دینے کا خیال فورا کرو۔
زمانہ سلف
کا ایک ہندو فلاسفر لکھتاہے کہ یہ نیچرل حسن کیا شِے ہے جو اسی لطافت کے ساتھ قدم اٹھاتا ہے۔ اس کے رخسار مثل پھول کے ہیں۔ اس کا تنفس قطرات شبنم کی مانند خوش آئند ہے اور اس کی پیشانی پر ایک حسن آمیزبشاشت نزہت بخش ہےاور خود ہی اس سوال کا جواب دیتا ہے یہ تندرستی ہے جوٹمپرنس اور ورزش کی بیٹی ہے۔ ایک اخلاق کی کتاب میں لکھاہے کہ وہ غریب آدمی جو تندرست اور چاق و چوبند ہو اس امیر سے ہزار درجہ بہتر ہے جو خراب صحت کے ہاتھوں جان سے بیزارہو۔
تندرستی اور جسم کی عمدہ حالت دنیا بھرکے مال دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ اس پروردگار کا شکر کرے جس نےصحت عطا کی اور کچھ وقت دنیا کا اس کی حمد کے لے بھی نکال لے اور اپنے دوستوں کو بھی یاد کراے کہ اس پروردگار کا شکر کریں کہ جس نے اور نعمتوں کے باوجود ایک سب سے زیادہ نعمت تندرستی عطا کی۔ آپ خود نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ جب ذرا بیماری آتی ہے تو سب دنیا کے کار بھول جاتے ہیں اور اس کو یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہماری سخت غلطی ہے کہ اگر بیماری سے پہلے بھی اس کو یاد کیا جاے اور بری صحبتوں سے بچا جاے تو سب سے بہترہے۔ اس سے تمام کام اچھے ہوں گے اور کسی بلا میں گرفتار نہ ہوں گے۔