سیزیرن کے اصل اسباب کیا ہوتے ہیں؟ ایک ماہر گائناکالوجسٹ بتاتی ہیں راز کی باتیں۔
"بی بی! تم بہت کمزور ہو، آٹھواں بچہ ہے، پیٹ میں پانی کی مقدار بھی زیادہ ہے اور بچے کی پوزیشن بھی سیدھی نہیں۔ تمہارا کیس نارمل نہیں ہو سکتا"
"باجی! میرے سارے بچے نارمل ہوئے، سب سے چھوٹا 9 سال پہلے، پتہ بھی نہیں چلا، گھر میں منٹ بھی نہیں لگا اور میں فارغ ہوگئی"
"بی بی! وہ 9 سال پہلے کی بات ہے، اب تمہاری عمر39 سال ہے اور دو بچوں میں وقفہ بھی لمبا ہے۔ اتنی ساری وجوہات میں سے ایک دو بھی ہوں تب بھی آپریشن ہی ہونا چاہیے۔ "دیکھو! تمہاری جلد کی رنگت بھی پیلی زرد ہے اور پیر بھی سوجے ہیں، یہ ٹیسٹ لکھ کردیتی ہوں، چیک کراؤ، کل دکھا لینا"
"باجی! آج تک میں نے کبھی خون ٹیسٹ نہیں کرایا، اب اس کی کیا ضرورت ہے؟ میری ساس کہتی ہے کھانے پینے کی طرح بچہ پیدا کرنا بھی عام سی بات ہے۔ میرا کچھ سانس زیادہ پھولنے لگا تھا تو آپکے پاس آ گئی کہ کوئی سیرپ لکھ دیں گی۔ آپ تو مجھے لمبا کام بتا رہی ہیں، دائی تو پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ ڈاکٹر کے پاس مت جاؤ وہ تو آپریشن کے علاوہ کوئی دوسری بات ہی نہیں کرتیں"۔
خاتون نے سلام کیا، گائناکالوجسٹ کے دیے ہوئے دوا کے سیمپل سمیٹے اور چلی گئی۔ پھر اس کی خبر تب ملی جب گھر میں کوشش کے باوجود ترچھے بچے نے پیدا ہونے سے انکار کردیا تو سرکاری اسپتال میں بڑے آپریشن سے مردہ بچہ پیدا کروایا گیا۔ بڑھی ہوئی شوگر اور تیز بلڈ پریشر کے ساتھ ساتھ خون کی شدید کمی نے کیس پیچیدہ بنا دیا تھا۔ زچہ کی جان بمشکل بچائی جا سکی۔ دائی اماں تب بھی اصرار کررہی تھیں بچہ پیدا ہو جانا تھا، بس! لیڈی ڈاکٹر نے آپریشن جلدی کر دیا۔
یہ ایک عام تصویر ہے جو روز مرہ پریکٹس میں ہرگائناکالوجسٹ کے ہاں دیکھی جاسکتی ہے، اسے زچہ کا کیس کرنے سے پہلے اسکے عزیز و اقارب سے بحث کا کیس لڑنا پڑتا ہے۔ خصوصاً ایسے مریض جو بالکل آخری لمحے ایمرجنسی میں پہنچتے ہیں، پریشان، تھکے ہوئے، خوفزدہ اور غصے میں۔ انھیں اس لمحے ایک پروفیشنل، کام سے کام رکھنے والے ڈاکٹر سے زیادہ ایک ہمدرد مسیحا کی طلب ہوتی ہے جو کام کے ساتھ ساتھ نفسیات کی بھی ماہر ہو۔ ڈاکٹر بھی گوشت پوست کا انسان ہوتی ہے، اسے مریض کے فائدہ اور نقصان کو میڈیکل کے اصولوں کے ترازو میں تول کر مریض کے نارمل کیس یا آپریشن کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بعض مریضوں کے عزیز اتنے سمجھدار ہوتے ہیں کہ انہیں آپریشن کی وجہ بتائی جائے تو وہ مان لیتے ہیں لیکن سب ایسا نہیں کرتے۔
چار بچے نارمل پیدا کرنے کے بعد پانچویں بچے کے لئے آپریشن کیوں کرنا پڑا؟ کیا ماں کی شوگر، بچے کا سائز اور وزن میں اضافہ سبب بنا؟ ماں کا تیز بلڈ پریشر زچہ اور بچہ کے لیے خطرناک تھا یا چار بیٹیوں کے بعد ملنے والا پہلا بیٹا اتنا قیمتی سمجھا گیا کہ اس کے لیے نارمل ڈلیوری کا خطرہ مول لینا مناسب نہ سمجھا گیا؟ ان تمام وجوہات کو سمجھنے کا درست وقت ایمرجنسی نہیں ہوتا، تب صرف عمل کا وقت ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بیشتر ڈاکٹرز"بچے کے دل کی دھڑکن خراب ہے" اور "بچے کی جان خطرے میں ہے"کہتی ہیں اور آپریشن کردیتی ہیں۔ اس وقت بھی مقصد ماں اور بچے کی بہتری ہوتا ہے نا کہ پیسہ۔ یہ غلط العام خیال اتائی نرسوں اوردائیوں کا پھیلایا ہوا ہے۔