مشینوں کی فراوانی نے اس دور کے انسان کو اس حد تک آرام طلب بنادیا ہے کہ اب ان کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے جسمانی محنت نہ کرنے کے سبب تندرستی کو برقرار رکھنا ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے اس کی وجہ سے اب معدہ دل کی بیماریاں اور شوگر جیسا موذی مرض پھیلتا جا رہا ہے۔
ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ تندرست رہے طاقتور ہو بڑھاپا دیر سے آئے اور لمبی عمر پائیے تندرست و توانا رہنے کے لیے دو چیزیں لازمی جز ہیں ایک متوازن غذا اور دوسری ورزش اگر غذا متوازن نہ ہو تو ورزش کا کوئی فائدہ نہیں اس طرح اگر متوازن غذا کے ساتھ ورزش نہ کی جائے تو یہ بیکار ہے۔ ورزش سے طبیعت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے دوران خون مناسب حد تک تیز ہوجاتا ہے عذاب میں قوت اور توانائی پیدا ہوتی ہے جس میں تمام نظام کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے جس سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ورزش نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت کے لیے بھی مفید ہے، مشہور کوٹیشن ہے ہے صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے ورزش سے دوران خون تیز ہونے سے دماغ میں خون پوری طرح گردش کرتا ہے جس سے دماغ نشونما پاتا ہے انسان کی ذہنی صلاحیتیں بڑھتی ہیں اچھے خیالات پیدا ہوتے ہیں ہیں اور وہ برائیوں سے بچا رہتا ہے دین اسلام اپنے ماننے والوں کو معاملات زندگی میں فعال رہنے کی تلقین کرتا ہے۔
ورزش کا تعلق براہ راست ہمارے جسم سے ہے اس کی باقاعدگی جوڑوں پٹھوں سے لے کر خون کے دورانیے کو بہتر بنانے اور مختلف قسم کے نفسیاتی امراض پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہوئی ہے اس کی اہمیت کا اندازہ ہمارے مذہبی ارکان کے طریقہ ادائیگی سے ہوتا ہے جس میں کسی حد تک جسمانی مشقت رکھی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نماز پڑھ کر آپ ﷺ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارے پیٹ میں درد ہے میں نے عرض کیا جی اور رسول ﷺ نے فرمایا کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اس میں شفاء ہے ہے۔
نماز پڑھنے کے لئے سب سے پہلے وضو کا اہتمام کیا جاتا ہے وضو کے دوران جب ہاتھ چہرہ کہنیاں اور پاؤں دھوئے جاتے ہیں اور سر کا مسح کیا جاتا ہے تو اس سے جسم میں تازگی پیدا ہوکر پٹھوں کو سکون ملتا ہے اور طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ہائی بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے اور چہرے پر رونق پیدا ہوتی ہے نماز کے تمام ارکان کے دوران ریڑھ کی ہڈی بہت متحرک رہتی ہے کہ قیام کے دوران گھٹنوں ٹخنوں پنڈلیوں اور ہاتھوں کے جوڑوں کی خاص ورزش ہوتی ہے اور فاسد مادے جسم سے خارج ہوتے ہیں جس سے جوڑوں کے درد ختم ہو جاتے ہیں۔
رکوع کا عمل جگر معدے اور گردوں کے افعال کو درست کرتا ہے قبض آنتوں کی خرابیوں اور معدے کے امراض سے نجات ملتی ہے اور پیٹ کی چربی کم ہوتی ہے خون کا دورانیہ تیز ہو جاتا ہے جو اعضاء کے سن ہونے کی بیماری میں مفید ہے۔
جسم کی کسی بھی پوزیشن میں دماغ کی طرف خون کا بہاؤ اتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا سجدے کی حالت میں دماغ کی شریانوں دماغی اعصاب چہرے اور سر کے دیگر حصوں کی طرف ہوتا ہے جس سے دماغی قوت میں اضافہ ہوتا ہے نگاہ تیز سر درد وغیرہ سے نجات ملتی ہے دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا گھٹنوں اور پنڈلیوں کو مضبوط بناتا ہے اس کے علاوہ رانوں کے پٹھوں کو بھی قوت حاصل ہوتی ہے جس سے بہت سے جنسی امراض دور ہوتے ہی نماز کے اختتام پر سلام پھیرنے کے عمل سے گردن اور سینے کے عضلات کو مضبوط ہوتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ نماز فی نفسہ حفظان صحت کا اک ذریعہ ہے۔
جدید میڈیکل سائنس پروف کرتی ہے کہ نماز کا عمل سکون فراہم کرتا ہے کمفرٹ آف فرانس کی تحقیق کے مطابق خودکشی کی طرف مائل مریضوں کو نماز کی طرح کی مشق کرائی گئی تو ایسے مریض خود بخود اس خودکشی کے رجحان سے متنفر نظر آئے ڈاکٹر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ہم نے مسلمانوں میں خودکشی بہت کم دیکھی ہے تحقیق کے ذریعے ہمیں پتہ چلا کہ وضو اور نماز کی وجہ سے یہ رجحان کم ہو کر بالآخر ایک انسان میں ختم ہو جاتا ہے اپنی نماز ایک ایسی ورزش ہے جو ہر عمر کا شخص کر سکتا ہے۔