پرہیز علاج سے بہتر ہے اور اس کی افادیت میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا اگر مریض دوران مرض کھانے پینے میں اعتدال برتے امور صحت کا پابند رہے تو جلد صحت یاب ہوجاتا ہے۔
اگر اچھا خاصا صحت مند آدمی بد پرہیزی پر کمر باندھ لے تو جلد یا بدیر ضرور بیمار ہوجاتا ہے، اس لیے صحت مند لوگوں کو عام طور پر اور مریض لوگوں کو خاص طور پر غذاؤں کے استعمال میں پرہیز کرنا چاہیے اس سے نہ صرف ان کو جلد صحت نصیب ہوگی بلکہ ادویات پر ناجائز خراجات بھی نہیں ہوں گے۔
پیچش اور دستوں کے مریضوں کو چپاتی اور ہر طرح کا سالن منع ہے۔ مرچ اور مصالحہ دار اشیاء خاص طور پر نقصان کا باعث بنتی ہے۔ ایسے مریض کو ساگودانہ کی کھیر کھلائیں ایک چھٹانک ساگودانہ صاف کرکے تین پاؤ ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیں، جب گل جائے یعنی اس کی سفیدی نظر نہ آئے تو اس میں اتنا دودھ ڈالیں جتنا چائے میں ڈلتا ہے اس کے بعد میٹھا یا مریض کی پسند کے مطابق نمک ڈال کر اتار لیں یہ ساگودانہ پتلا ہوتا ہے مریض چمچ سے آسانی سے کھا سکتا ہے مریض کی کھچڑی بھی اچھی طرح پکا نا چاہیے دال اور چاول سخت نہ ہوں۔
بچوں کو اکثر دست لگے رہتے ہیں دودھ پیتے بچوں کے دست بہت جلد خطرناک صورت اختیار کر لیتے ہیں خاص کر ایسے بچے جو ماں کے دودھ کے علاوہ کسی دودھ پر ہوتے ہیں ایسے بچوں کو چھوٹی الائچی اور سونف والا ابلا ہوا پانی ٹھنڈا ہونے پر بار بار دینا چاہیے یہ پانی ہلکا بنانا چاہیے تاکہ بچے پیتے وقت نفرت نہ کریں۔ چھوٹے بچوں کے دست روکنے کے لیے گرائپ واٹر یا انڈے کی سفیدی پانی میں پھینٹ کر دینا مفید رہتا ہے۔
زخم معدہ کا مریض کسی قسم کی دیر ہضم اور ثقیل غذا نہ کھائے تیز مرچ والی اور مصالحے دار غذا منع کریں صرف گائے کا دودھ یا دودھ سے بنی ہوئی اشیاء پر گزارا کریں ایسے مریضوں کے لیے انڈا بھی مفید ہے۔
قبض کے مریض اگر ہر روز غذا میں سبزیاں اور پھل کثرت سے استعمال کریں تو قبض کی شکایت ناممکن ہے خاص کر ایسی سبزیاں جو فضلہ زیادہ بنائیں وہ قبض توڑنے میں زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے مثلا شلجم، مولی، گاجر، ٹماٹر، بینگن، چقندر، کھیرا، ککڑی، خربوزہ، حلوہ کدو، ناشپاتی سے وغیرہ۔
گردے کے مریض کو غذا کم سے کم دے پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ پانی میں ذائقہ کے لئے سنگترے یا لیموں کا رس ملا جا سکتا ہے۔ گرمی کے موسم میں جبکہ پسینہ بہت زیادہ آتا ہے اس لیے اس کی مقدار گرمیوں میں چار گنا کی جا سکتی ہے۔ مریض پالک، اور ٹماٹر کا استعمال نہ کرے گردے میں پتھری عام طور پر پیشاب گاڑھا ہونا، ورزش کی کمی مثانے میں انفیکشن اور غیر متوازن خوراک کی وجہ سے ہے لیکن سب سے بڑی وجہ پیشاب کا گاڑھا ہونا ہوتا ہے پیشاب کو پتلا کرنے کے لئے پانی کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔
یرقان اور پتے کے مریض گھی مکھن اور دودھ سے مکمل پرہیز کریں، انڈے بھی ان امراض میں مضر ہوتے ہیں پھل اور سبزیاں کھائیں ابلا ہوا گوشت بغیر چربی کے بھی کھایا جاسکتا ہے۔
شوگر کے مریضوں کے لیے چینی، زیادہ نشاستہ دار غذائیں مثلا آلو، شکر قندی، کیلا، چاول اور زیادہ مقدار میں گھی، مضر گنے جاتے ہیں۔ چاولوں میں نشاستہ اور کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے چاول کھانے والے بغیر کسی حساب کے کھاتے چلے جاتے ہیں اس لئے بیمار ہو جاتے ہیں بیسن اور چنے پیشاب کی مقدار کو کم کرتے ہیں ذیابیطس کے مریض اس سے فائدہ محسوس کرتے ہیں۔
ٹائیفائیڈ بخار میں بخاروں کے جملہ پرہیزوں کے علاوہ ایک اور بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ کہ مریض کی انتڑیوں میں زخم ہوتے ہیں، اس لئے جو بھی غذا تجویز ہو انتہائی زود ہضم اور ہلکی ہونی چاہیے۔ عام طور پر اس مرض میں مائع غذا بہتر رہتی ہے نیم ابلا ہوا انڈا اور دودھ ہرگز بند نہیں کرنا چاہیے ورنہ مریض بہت جلد کمزور ہو جائے گا۔ جو کا دلیہ شہد ڈال کر بہت مفید ہے۔ ساگودانہ کی کھیر کھچڑی یخنی سوپ اور گرمی کے موسم میں فروٹ جوس اور گلوکوز وغیرہ دیا جا سکتا ہے۔ بخار کے مریض ہر قسم کا پھل استعمال کر سکتے ہیں مگر یہ خیال رکھنا چاہیے کہ پھول دیر ہضم نہ ہو پیٹ میں نفخ پیدا نہ ہوں کچا اور کھٹا نہ ہو پھلوں سے مریض کا دل ٹھیک رہتا ہے اور قے نہیں ہوتی۔
اگر مریض کے خون کا دباؤ بہت زیادہ ہو تو مریض کی خوراک میں سے نمک بند کردیں۔ مرغن غذاؤں سے منع کریں خاص کر گوشت، مرغی، انڈوں سے پرہیز فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اگر مریض کا وزن ضرورت سے زیادہ ہو تو اسے کم کرنے کے لئے غذا کی مقدار کم دی جائے۔ بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے سادہ غذا خاص طور پر پھل سبزیاں اور مونگ کی دال بہتر رہتی ہے، گوشت انڈے اور گھی کی زیادتی مضر ثابت ہوتی ہے۔
نمونیا کھانسی زکام گلے کی سوزش میں مریضوں کو چربی، ڈالڈا گھی، تیل اور ترش اشیاء سے پرہیز لازمی ہے۔ ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی اشیاء مثلا شربت لسی دہی سوڈا برف سنگترہ مالٹا کینو وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہیے ایسے مریضوں کو گرم غذا مثلا انڈہ چائے گرم دودھ سوپ یخنی مچھلی کا شوربہ غیرہ زیادہ مفید ہے۔
اور آخر میں ایک بات، پرہیز نہ کرنے والا مریض اپنے طبیب کی قابلیت خاک میں ملا دیتا ہے۔