معالجین نبض شناسی سے غریب، متوسط اورطبی ٹیسٹوں کے اخراجات افورڈنہ کرسکنے والوں کو طبی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔
سائنس کی بنیاد مشاہدے، تجربے اور نتائج پر رکھی گئی ہے جبکہ فطرت وہ قوت ہے جو ہر سو، ہر وقت اور ہر جگہ پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔
قوتِ مشاہدہ سے لیس دماغ و نگاہ فطرت کے جلووں کو دیکھ کر ہی ارتقائی تجربات کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اڑتے ہوئے پرندوں کی اڑان دیکھ کر ہوائی جہاز اور سمندروں کی سینے چیرتے سمندری جانوروں کو دیکھ کر بحری جہاز ایجاد ہوئے۔
فطرت اور سائنس کے مابین بُعد کا پروپیگنڈہ کرنے والے دانشور بھول جاتے ہیں کہ سائنسی ارتقاء کے تمام مراحل فطری اشاروں اور کنایوں کے بل بوتے پر ہی طے پائے۔ جدید ٹیکنالوجی، مواصلات، موبائلز، میڈیکل ایجادات، جدید تشخیصی آلات اور تمام تر دستیاب سائنسی سہولیات کا جائزہ لیا جائے توان کا وجود فطری طاقت کا اعتراف کرتا دکھائی دیتا ہے۔
زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح طب کے میدان میں بھی جدید میڈیکل سائنسی ایجادات اور تشخیصی آلات کی بھرمار ہو چکی ہے۔ طب قدیم کے تشخیصی ذرائع نبض و چہرہ شناسی، جلد کی رنگت اور قارورہ وغیرہ تھے جبکہ فی زمانہ لیبارٹیکل ٹیسٹوں نے امراض کی تشخیص کو مزید آسان بنادیا ہے۔ جسم کے ہر عضو کی حالت، کیفیت اور خون میں شامل غذائی و کیمیائی اجزاء کا معائنہ چند گھنٹوں میں ممکن ہے۔ ماضی میں صرف ایک طبیب ہی پورے بدن انسانی کا ماہر مانا جاتا تھا۔ لیکن آج کل جدید میڈیکل سائنس نے شعبہ طب کوکئی حصوں میں بانٹ دیا ہے۔
ایک انسان کو اپنے مکمل جسمانی معائنے کے لیے کئی معالجین اور معائنہ کاروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ دل، دماغ، جگر، گردے، مثانہ، آنکھ، ناک اور کان، ہڈی و جوڑ کے الگ الگ معالجین سے مشورہ کرنے کی سہولت عام ہوگئی ہے۔ اسی طرح ایل ایف ٹی، آر ایف ٹی، لیپڈ پروفائل، ای سی جی، ایکو، ایکسرے، ایم آر آئی، سی ٹی سکین اور الٹرا ساؤنڈ وغیرہ کے لیے بھی ممکنہ طور پر مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے جدا جدا ماہرین سے رائے حاصل کی جاتی ہے۔
جدید دور کے ان مسلمہ حقائق سے چشم پوشی کو نرم الفاظ میں احمقانہ غفلت ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ وقتی تقاضوں کے عین مطابق دستیاب طبی سہولیات اور تشخیصی آلات سے استفادہ موجودہ دور کے مالیکیولر امراض کی لازمی ضرورت بن چکا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پرانے اور قدیم طرز علاج و تشخیص پر انگشت زنی کرنا بھی کسی صورت روا نہیں۔ اس وقت کے لحاظ سے طبی طرز علاج وتشخیص وقتی تقاضوں کے عین مطابق تھیں اور آج بھی انھیں ماننے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ طب، طبیب اور نبض شناسی لازم وملزوم سمجھے جاتے ہیں، پرانے وقتوں کے طریقہ تشخیص میں نبض شناسی ایک معتبر ذریعہ مانا جاتا تھا۔
نبض ایک ایسا فن ہے جسے طبی ماہرین نے سالہا سال نبض کی حرکات کے مشاہدات و تجربات کے بعد رائج کیا۔ نبض بنیادی طور پر دل کی حالت، کیفیت اور صحت کوبیان کرتی ہے۔ ایک ماہر نبض شناس مرض کے مزاج سے مختلف امراض تک پہنچتاہے۔ نبض شناسی کو اگرچہ کسی حد تک سائنسی طور پر ثابت کرنا تو ممکن نہیں لیکن نبض کی افادیت کو تجرباتی اور مشاہداتی لحاظ سے رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔
نبض کی مسلمہ حقانیت کو بادی النظر میں دیکھا اور پرکھا جائے تو یہ موجودہ دور کی سائنس سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ جدید سائنسی لیبارٹریز سے نتائج لینے کے لیے خون کا سیمپل دینا پڑتا ہے جبکہ نبض صرف چھونے سے ہی کافی حد تک مریض کا مزاج، طبعی کیفیت اور حالت بیان کر دیتی ہے۔
نبض شناسی کو متروک کہنا سراسر زیادتی ہوگی کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم ماضی کی اہم اور مفید اشیاء کو ناکارہ سمجھنے لگیں۔ یقیناً ہم نے ترقی کے بہت سارے زینے عبور کرلیے لیکن ماضی کی کسی حقیقت کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔ اسی طرح طب سے وابستہ معالجین آج بھی نبض شناسی سے غریب، متوسط اور لیبارٹیکل ٹیسٹوں کے اخراجات افورڈ نہ کرسکنے والے مریضوں کو طبی خدمات مہیا کر رہے ہیں۔ آج بھی اطباء کے پاس علاج کے لیے آنے والے افراد جب مطمئن ہیں تو کسی دوسرے فرد کو ہر گز یہ حق نہیں پہنچتا کہ صدیوں سے رائج روایتی طریقوں پر اعتراض کرتا پھرے۔
پاکستان میں نیچرو پیتھی (طب قدیم) ہومیو پیتھی، ایلو پیتھی، گھریلو ٹوٹکے اور دم درود سے علاج معالجے کے طریقے رائج اور عام ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس کے بے شمار ارتقائی مراحل طے کر نے کے باوجود ہمارے ہاں آج بھی نصف سے زائد آبادی بیمار ہونے کی صورت میں نیچرو پیتھی گھریلو ٹوٹکوں اور دم درود کا تر جیحی بنیادوں پر استعمال کرتی ہے۔
فطری طرز علاج نہ صرف پاکستان میں پسند کیا جاتا ہے بلکہ دنیا بھر میں فطری غذاؤں اور دواؤں کے استعمال میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کا ادارہ "ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن" کی شائع رپورٹ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود دنیا کے86 فیصد آبادی نیچرل ادویات کا استعمال کر رہی ہے جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ "پاپولیشن فنڈ" کے مطابق پاکستان کی76 فیصد آبادی مختلف امراض کے سلسلے میں نیچرل میڈیسنز کا استعمال کرتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق فطری طرز علاج اور روایتی ادویات دور حاضر کی بیماریوں کا موثر علاج ثابت ہورہے ہیں لہذا انھیں صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کرنا چاہیے۔ ڈبلیو ایچ او نیچرل ادویات اور فطری طرز علاج کو متبادل طریقہ علاج کے طور پر تسلیم کرچکی ہے۔
2018ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹرجنرل مارگریٹ چان نے چینی دارالحکومت بیجنگ میں منعقدہ "انٹرنیشنل فورم آن ٹریڈیشنل میڈیسن" سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا: "چین میں تقریباً دو ہزار سال سے علاج کے لئے روایتی ادویات استعمال کی جا رہی ہیں، انہیں نزلہ و زکام سے لے کر سرطان تک، ہر مرض کے علاج کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جڑی بوٹیوں خوراک اور ورزش کے امتزاج سے علاج کا انداز اب مغرب میں بھی مقبول ہورہا ہے"۔ مارگریٹ چان نے کہا کہ "عالمی ادارہ صحت کے خیال میں نیچرل ادویات کے جدید ادویات کی نسبت مضر اثرات کم ہوتے ہیں اور وہ عام بیماریوں مثلاً اسہال ملیریا وغیرہ کے لئے سستا اور مؤثر ترین علاج ہیں"۔
نیچرل ادویات کے موثر سستے اور غیر مضرت رساں ہونے کی وجہ سے پاکستان، بھارت، سری لنکا، برما اور بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ امریکا، جرمنی، برطانیہ، روس، چین، سوئیٹرزلینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اب اسے باقاعدہ سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ جرمنی کی 90 فیصد آبادی میں نیچرل ادویات کے استعمال کا رجحان پایا جاتا ہے۔
وہاں زیادہ تر بچوں کا علاج نیچرل ادویات سے کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں وہاں سونف کے قہوے کا استعمال عام ہے۔ برطانیہ ہربل ادویات کی مارکیٹ میں سالانہ 11 فیصد اضافہ ہورہاہے، اس وقت اس کی مارکیٹ کا حجم 230 ملین امریکی ڈالر ہے۔ برطانیہ میں کئی فرمیں مختلف جڑی بوٹیوں سے یرقان، گردے کی پتھری، گنٹھیا اور بواسیر کے علاوہ بھی کئی بیماریوں کے علاج کیلئے ادویات تیار کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ روس اور چین میں کینسر بواسیر بلڈپریشر آنتوں اور معدہ کی امراض اور دل کی شریانوں میں خون کے انجماد کو روکنے کے لئے قدرتی اجزاء سے تیار ادویات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
نیچرل ادویات کی مسلمہ افادیت کے پیش نظر اب یہ ادویات یورپ میں بھی ایکسپورٹ ہو رہی ہیں۔ دماغی امراض کے لیے لہسن سے روسی پینسلین نامی دوا تیار کی گئی، امریکہ میں جگہ جگہ نیشنل فوڈز کے سٹور قدرتی جڑی بوٹیوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں، ان میں ملٹھی، تلسی، گاؤزبان سے کف سیرپ تیار کیے جا رہے ہیں جو امریکہ کی ایلوپیتھک کف سیرپ کی بہ نسبت زیادہ مقبول ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 158 ملین کی بالغ آبادی میں نیچرل ادویات کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے بالخصوص 70سال سے زائد عمر کے لوگ بالخصوص زیادہ تعلیم یافتہ افراد نیچرل ادویات زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ امریکا میں پیچیدہ بیماریوں سے نجات کے لئے مذکورہ بالا ادویات کھائی جاتی ہیں۔
مثلاً کینسر، ذیابیطس، امراض قلب، سانس کی بیماریاں، جوڑوں کا درد اور موٹاپا۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں سفید فام ہو یا سیاہ فام یا پھر کسی تیسرے رنگ و نسل کے لوگ، ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں سے ایک تہائی افراد نیچرل ادویات استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح کم یا زیادہ آمدن والے افراد میں بھی یہی شرح دیکھنے کو ملی۔ گویا اس رحجان کا تعلق کمزور یا طاقت ور مالی حیثیت سے نہیں ہے۔ امریکی کمیشن کے مطابق نیچرل ادویات پر 10 بلین امریکی ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔ پیٹ کے امراض کے لیے سونف، الائچی اور پودینہ سے تیارکردہ ہربل ٹی کا استعمال امریکیوں میں عام ہے، یہاں جو کی ہربل ٹی بھی بہت پی جاتی ہے۔ سوئٹرز لینڈ میں نزلہ و زکام کے لئے بنفشہ کی چائے بہت پی جاتی ہے جبکہ دل کے امراض میں گاؤزبان کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
چین میں"جن سنگ" مشہورزمانہ بوٹی کو کولڈرنگ پاؤڈر اور چائے کی شکل میں بے انتہا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وقت چین میں 200 سے زیادہ لیبارٹریز میں جڑی بوٹیوں پر تحقیق ہو رہی ہے اور ان کی کاشت کے لئے ہر گاؤں میں ایک قطعہ زمین مخصوص کیا گیا ہے۔ اس طرح چین نے نیچرل ادویات کے لیے خام مال یعنی دیسی جڑی بوٹیوں کی پیداوار میں اپنے ملک کو مکمل طور پر خودکفیل بنا لیا ہے۔ چین میں سرکاری سطح پر ہربل سسٹم آف میڈیسن کے بیسیوں ہسپتال طبی تعلیم کے لئے بے شمار کالجز اور تحقیقی مراکز قائم کیے جاچکے ہیں۔ یورپی اور ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا بھر کے ایلوپیتھک اور دیگر طریقہ ہائے علاج کے ڈاکٹر اب جڑی بوٹیوں کی افادیت کے قائل ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے "ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن" نے بھی چینی ہربل ادویات کے استعمال کی ترویج کے لئے منظم کوششیں شروع کردی ہیں۔
افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں روایتی قدرتی ادویات کا استعمال بہت مقبول ہے۔ افریقہ کی 80 فیصد آبادی میں نیچرل ادویات سے علاج ہو رہا ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ افریقہ کے بعض خطوں میں 60 فیصد ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی ہربل ادویات استعمال کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق جاپان میں 60 فیصد سے70 فیصد ایلوپیتھک ڈاکٹرز مریضوں کو بعض ہربل ادویات تجویز کرتے ہیں۔
اسی طرح اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ صنعتی ممالک میں نیچرل ادویات کو لازمی یا متبادل جیسی اصلاحات کے طور پر پکارا جاتا ہے۔ یورپ، امریکہ اور دوسرے ممالک میں پچاس فیصد آبادی نیچرل ادویات استعمال کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آسٹریلیا میں 46 فیصد اورفرانس میں 49فیصد لوگ ان ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ کینیڈا میں 70 فیصدآبادی میں نیچرل ادویات کا رجحان بڑھا ہے۔ سان فرانسسکو لندن اور ساؤتھ افریقہ میں ایچ آئی وی/ ایڈز کے مریضوں کا زیادہ تر علاج نیچرل ادویات کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ 1995ء سے2000ء کے درمیان ڈاکٹروں کی تعداد جو ہربل ادویات میں خصوصی تربیت حاصل کر رہی تھی، ان کی تعداد اب تقریباً 10800 تک پہنچ گئی ہے۔
اس وقت نیچرل ادویات کی عالمی مارکیٹ کا حجم سالانہ 83 بلین ڈالر ہے، اس میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہاہے۔ ماہرین کے مطابق نیچرل ادویات نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی بیماریوں کے علاج میں بھی موثر ثابت ہو رہی ہے، قدرتی جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ ادویات جسم میں ازخود بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ اسے مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کی وجہ سے دوست خلیے متاثر ہوتے ہیں۔ اس طریقہ علاج میں غذا، آرام اور ورزش کی خصوصی ہدایات کی جاتی ہیں جو نہ صرف بیماری کی روک تھام میں معاونت کرتی ہیں بلکہ مثبت اثرات بھی ڈالتی ہیں۔ اس طریقہ علاج سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ نیچرل ادویات قوت مدافعت میں اضافہ کرتی ہیں اور میٹابولزم کو بڑھانے میں نہایت معاون ثابت ہوتی ہیں۔
پاکستان میں بھی چھوٹے بڑے شہروں میں سرکاری وغیر سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں و کلینکس کی بھرمار ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کے دور دراز دیہاتوں قصبوں میں لوگوں کی بڑی تعداد فطری طرز علاج معالجے کے لیے اطبائے کرام سے رجوع کرتی ہے۔ متوسط اور غریب طبقہ جو مہنگائی کے ہاتھوں دل برداشتہ پرائیویٹ میڈیکل کنسلٹنٹس اور لیبارٹیکل ٹیسٹوں کی بھاری فیسیں اور مہنگی ادویات برداشت نہیں کرسکتا، وہ اس قدرتی طریقہ علاج سے مستفید ہو رہا ہے۔ اطباء کرام آج بھی مروجہ طبی تشخیص بذریعہ نبض، قیرورہ، جلد کی رنگت، مرض کی کیفیت، مریض کی حالت اور بیان کردہ علامات کے تحت مریضوں کو امراض سے چھٹکارا دلانے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔
بلا مبالغہ آرائی شعبہ طب میں چھپی کالی بھیڑوں کی نان پروفیشنل اپروچ اور غیر انسانی سوچ کی وجہ سے ہمارے ہاں اطباء کے بارے میں کسی قدر بداعتمادی کی فضاء پائی جاتی ہے تاہم جوں جوں وقت گزررہاہے، حقائق سامنے آرہے ہیں، بے اعتمادی کی فضا کم ہورہی ہے۔ اطباء پر بڑھتے ہوئے اعتماد میں پڑھے لکھے اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ طبی معالجین کا کردار اہم ترین ہے۔ طب اور طبیب کے لیے انتہائی ناسازگار حالات ہونے کے با وجود آج بھی ملک بھر کے دور دراز میں خدمات سرانجام دیتے اطباء حضرات اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جدیدطبی تحقیقات اور تشخیصی آلات سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی بخوبی نبھا رہے ہیں۔
مذکورہ بالا حقائق کی رو سے دیکھا جائے تو اس وقت دنیا بھر کے ترقی یافتہ مملک سمیت پوری بنی نوع انسانیت نیچرل ادویات کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ راغب ہورہی ہے۔ "کْل شیء ْراجعْ الی الاصل" کے مصداق انسان بطور فطری پیدائش کے فطرت کی طرف لوٹ رہا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستانی حکومت کو بھی چاہیے کہ نیچرل ادویات اور فطری طرز علاج کو سرکاری سرپرستی میں لیتے ہوئے فروغ اور رواج دے۔ سرکاری سطح پر فطری طبی تعلیم کے ادارے قائم کیے جائیں، طبی تحقیقاتی ادارے بنا کر نیچرل ادویات پر تحقیق کا کام جاری کیا جائے۔ پاکستان میں ہر سال کروڑوں اربوں روپے کی قدرتی جڑی بوٹیاں محض اس لیے ضائع ہوجاتی ہیں کہ ان کی نگہداشت اور استعمال کا کوئی محکمہ اور نظام ہی نہیں ہے۔
قدرتی جڑی بوٹیوں کے حوالے سے قدرت نے پاکستان کو مالا مال کر رکھا ہے۔ پرائیویٹ سطح پر معدودے چند طبی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت طبی تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں ضرور ہیں لیکن 22 کروڑ آبادی کے ملک میں دو چا ر طبی تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تمام سرکاری یونیورسیٹیز میں نیچرل شعبوں کا قیام کیا جائے۔ طبی تعلیم میں اطباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی سہولت اور مواقع فراہم کیے جائیں۔
پڑھے لکھے اور سمجھدار اطباء کو جدید طبی ضروریات اور مالیکیولر امراض کی بھرمار کے پیش نظر ریفریشر کورسز کروا ئے جائیں، لیبارٹریکل آلات سے آگاہی اور ٹیسٹ رپورٹس سے شناسائی کے لیے لیکچررز کا اہتمام کیا جائے۔ اطباء پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں سرکاری اور نیم سرکاری سطح پر طبی خدمات سرانجام دینے کا موقع فرا ہم کیا جائے۔ ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ اطباء برادری اور فطری طرز علاج کو قومی دھارے میں شامل کر کے ہی پاکستان میں صحت مند ماحول وجود میں لایا جا سکتا ہے۔